Friday, February 19, 2016

ہماری معاشی صورت حال (افسانچہ)

ہماری معاشی صورت حال


پشاور میں رنگ روڈ کو مکمل کرنے پر کام جاری ہے، یہ روڈ ہمارے علاقے سے گزر رہا ہے، جس پر آجکل ایک فلائے اوور پر کام جاری ہے .آج وہاں جانے کا موقع ملا. کنسٹرکشن کمپنی نے ایک وسیع علاقے کو بالکل ایک کارخانہ بنایا ہےجس میں خیمےاور کنٹینر اور بھاری مشینیں وغیرہ لگائی ہیں. کمپنی کا مالک ایک پشتون ہے (کمپنی کے نام میں پشتون قبیلے کا نام آتا ہے)

بہت ذیادہ خوشی ہوئی کہ پشتونوں بھی اتنے بڑے پیمانے پر کام کرسکتے ہیں

.

ہم جیسے غریبوں کو چونکہ سرمایہ داروں سے ہمیشہ ایک لڑائی بھی ہوتی ہے (اور یہ لڑائی تب تک ہوتی ہے جب تک ہم غریب ہوتے ہیں، اور جس دن ہمارے پاس سو دو سو روپے آ جائے گے ہم غریب مریب کو بھول جائنگے) تو اسلئے سوچھا کہ ایک مزدور سے بات کی جائے. ادھر ایک مزدور ویسے بیٹھا تھا پہلے تو حیران بھی ہوا کہ یہ کیسا مزدور ہے؟ جو فارغ بیٹھا ہے میں اس کے ساتھ بیٹھ گیا سلام کیا اور کہا څنګه یې؟(کیسے ہو؟) تو اس بے ٹوٹی ہوئی پشتو میں کہا کہ پشتو نہیں سمجھ آتی میں نےپوچھا کہاں کے ہو؟ تو کہا ملتان کا. میں نے حیرت سے پوچھا ملتان سے یہاں کام کرنے آئے ہو؟ تو کہا ہاں میں الیکٹرشن ہوں اور رات کو کام کرنے والوں کیلئے روشنی کا انتظام کرتا ہوں. میں سمجھ گیا کہ یہ اسلئے فارغ بیٹھا ہے کہ اسکا کام سارا رات کو ہوتا ہے.میں نے پوچھا کہ کتنے مزدور ہیں سارے تو سوچ کر کہنے لگا سارے فورمین، مزدور، منشی، اور دیگر عملے کو ملا کر تقریبا تین سو. میں نے چونک کر کہا، تین سو؟
تو کہا ہاں! دو شفٹوں میں کام ہوتا ہے ایک رات اور دوسرا دن کو. میں نے پوچھا کہ تمہارا دل تنگ نہیں ہوتا سارے پشتون ہیں اور تم پنجاب سے آئے ہو تو ہنس کر کہا کہ ان تین سو لوگوں میں بمشکل دس پشتون ہونگے. اسی اثناء مجھے ایک کال آئی اور میں نے اس سے اجازت مانگ کر اپنے گھر کا رخ کر لیا اور ابھی تک یہی سوچ رہا ہوں کہ پشتونوں کے پاس کوئی ہنر نہیں، نہ کوئی تعلیم ہیں اور نہ کوئی اور کام کرنے کو آتا ہے، یہ سعودی عرب میں کیا کرتے ہونگے؟ 
پھر زہین میں کوریڈور کا مسئلہ آگیا کہ اگر یہ کاریڈور آ بھی جائے تو ہمارے پاس تو کوئی ڈنگ کا ہنر ہی نہیں.کیا ہم صرف سڑکوں کو دیکھ کر خوش ہوتے ہونگے؟

feedback

 
;